میرے ہمسفر، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں كے کھیل سا
اسے دیکھتے ، اسے جھیلتے
میری آنکھ گرد سے اٹ گئی
میرے خواب ریت میں کھو گئے
میرے ہاتھ برف سے ہو گئے
میرے بے خبر تیرے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے
کہ وہ جو ایک ربط تھا درمیان وہ بکھر گیا
وہ ہوا چلی
وہ کسی شام ایسی ہوا چلی
كے جو برگ تھے سَر شاخ جاں ، وہ گرا دیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر ، وہ اڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
!وہ جو منزلوں کے آمین تھے
وہ نشان پا بھی مٹا دیئے
میرے ہمسفر ، ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بَدَل گیا
اسے ناپتے ، اسےکاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
تو میرے سفر کا شریک ہے
میں تیرے سفر کا شریک ہوں
پر جو درمیان سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں
اسی بے یقین سے غبار میں
اسی راہگزر کے حصار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
...میرا راستہ کوئی اور ہے
امجد اسلام امجد -
No comments:
Post a Comment